زبان تبدیل کریں
×
مواد
اردو – کماؤنی
شہر میں پولیس سے ملاقات
  • سپاہی- اے موٹر سائیکل، گاڑی روک۔ یہیں کنارے لگائیے۔ لائسنس لائیے اور کاغذ بھی دکھائیے۔
    ای ای موٹر سائیکل، گاڑی روکا۔ ین ین لگا کنارا۔ لائسنس لا اور کاگج لائی دکھا
  • لڑکا- بھائی صحب کیا غلطی ہوگئی مجھ سے؟ میں تو ٹھیک ہی چلا رہا ہوں اپنی سائڈ میں چل رہا ہوں میں۔
    داجیو کے گلتی ہیگے مدھن؟ میں تو ٹھیکئی چلنیون اپنی سائڈ میں
  • سپاہی- ٹھیک ہی تو نہیں چلا رہے ہیں آپ۔ بنا ہیلمیٹ گاڑی چلا رہے ہو۔ معلوم نہیں ہے بغیر ہیلمیٹ چلانا جرم ہے۔ کہاں رہتے ہو؟
    ٹھیکے تو نی چلنئے لو۔ بنا ہیلمیٹ گاڑی چلونئے چھے۔ معلوم نہانتی بنا ہلیمیٹ گاڑی چلون جرم چھے۔ کاں رونچھئے تو؟
  • لڑکا- دیکھ لیجئے کاغذ اور لائسنس بھائی صاحب، پورے ہیں سب۔
    دیکھ لیاؤ کاگج اور لائسنس ہاجیو، پور چھن سب
  • سپاہی- اچھا آپ پہاڑی ہیں، کہاں کے رہنے والے ہیں؟
    اچھا پہاڑی چھے تو، کانک رونی وال چھے؟
  • لڑکا- بھائی صاحب مجکھالی رہتا ہوں میں، آپ بھی پہاڑ کے ہیں کیا؟
    داجیو مجکھالی رونون میں، اپن لے پہاڑ کیئی چھا کے؟
  • سپاہی- ہاں میں بھی پہاڑ کا ہی ہوں۔ ہمارا گھر جینولی میں ہے، رانی کھیت سے پہلے۔
    ہویا مینلئی پہاڑوکئی چھون۔ ہمار گھر جینولی چھ، رانی کھیت ہے پیلئی
  • لڑکا- پھر تو آپ ہمارے علاقے کے ہی ہوئے۔ بھائی دراصل میں ہلدوانی موٹر سائیکل لے کر پہلی بار آ رہا ہوں۔ کمپنی میں سروس کروانی تھی اسی لیے اس کو لے کر آنا پڑا۔ ہیلمیٹ کے بارے میں مجھے کچھ معلوم ہی نہیں تھا۔
    پھر تو تم ہمارا علاقہ کئی بھایا۔ دادی اسَم میں، میں ہلدوانی موٹر سائیکل لِبیر پیل بار اونیوں۔ کمپنی میں سروس کرونی چھی یوکی تب یکاں لبیر اون پڑو۔ ہیلمیٹ بار میں مکاں کے پتے نی چھی۔
  • سپاہی- تم کو معلوم نہیں تھا کہ آج کل یہاں بہت سختی ہو رہی ہے۔ بغیر ہلیمیٹ موٹر سائیکل چلانے پر چالان ہو رہا ہے۔ کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں ہو رہی ہے۔ ہیلمیٹ تو یہاں بہت ہی ضروری ہو گیا ہے۔
    توکوں پتا نی چھ کی یاں آج کل بھوت سختی ہے رئے۔ بنا ہیلمیٹ پیری پیری موٹر سائیکل چلون میں چالان ہے جانوں۔ کوئی رعایت نی ہونوں، کیکے دگاڑ لئے نئے۔ ہیلمیٹ تو بھوتے جروری ہیگو اب یاں۔
  • لڑکا- پر بھائی صاحب سچ کہہ رہا ہوں مجھے بالکل بھی معلوم نہیں تھا کہ ہیلمیٹ پہننا ضروری ہوگیا ہے یہاں۔ پتا ہوتا تو بنا ہیلمیٹ کیوں گاڑی چلاتا۔ رانی کھیت کے گاؤں کی طرف تو ایسی کوئی چیکنگ ہوتی ہی نہیں ہے۔ نا ہی ادھر ایسے قانون کی کوئی معلومات ہے۔
    پر داجیو سچھی کونیوں مکاں بالکل لئے پتا نی چھی کی ہیلمیٹ پیرن جروری ہیگو یاں۔ پتا ہنوں تو بنا ہیلمیٹ میں کیلے گاڑی چلونیوں۔ رانی کھیتاک گوناں اوجیانی تو تسکی کوئی چیکنگ ہونیں نہاں۔ نئے نتھکئے اوجیانی تس قانونیکے کوئی جانکاری چھ۔
  • سپاہی- پر اب تو بڑی مشکل ہوگئی کیونکہ داروغہ صاحب سامنے بیٹھے ہوئے ہیں۔ اب وہی جو چاہیں گے کریں گے، ان کو سچ بات بتا دو اور معافی مانگ لینا۔ میں بھی ذرا کہہ دوں گا۔
    پر اب تو بڑی مشکل ہیگئے کہ دروگا سیپ بھینٹ رئیں سامنیں میں۔ او جے کرال اب، اونن کے سچھی بات بتے دے اور معافی مانگ لیو۔ میلئے کئے دیوں جرا۔
  • سپاہی- سر یہ لڑکا رانی کھیت سے گاڑی لے کر یہاں پہلی بار آ رہا ہے۔ اس کو معلوم نہیں تھا کہ یہاں ہیلمیٹ پہننا ضروری ہے۔ رانی کھیت میں تو کوئی پوچھتا ہی نہیں اس لیے ویسے ہی یہاں بھی آ گیا۔
    سر یو لونڈ رانی کھیت بٹی گاڑی لبیر یاں پیلی پیلی اونوں۔ یکاں پتا نی چھی یاں ہیلمیٹ پیرن جروری چھ۔ رانی کھیت میں تو کوے پوچھنے نہاں یئ لیجی اسیکئے یاں ایگو۔
  • داروغہ صاحب- کیوں رے، تجھے معلوم نہیں کہ یہاں اب ہیلمیٹ پہننا ضروری ہوگیا ہے۔ بغیر ہیلمیٹ کے چالان ہے۔
    کلئے رے، توکے پتا نی چھی کی یاں اب ہیلمیٹ پیرن جروری ہیگو۔ بنا ہیلمیٹ تورنت چالان چھ۔
  • لڑکا- سر مجھے معلوم ہوتا تو میں ایسی غلطی نہیں کرتا۔ مجھے واقعی معلوم نہیں تھا۔ اس بار معاف کر دیجئے۔
    سر مکاں پتا ہونے تاں میں تسی غلطی کیوہوں کرنیوں۔ مکاں واقعی پتا نی چھی۔ یو بارمعاف کر دیو۔
  • انسپیکٹر- اس بات تو تجھے معاف کر رہا ہوں وہ بھی اس لیے کہ تو پہلی دفعہ پہاڑ سے ہلدوانی آ رہا ہے۔ تیری جگہ میں کوئی اور ہوتا تو سیدھے چالان کاٹ دیتا میں، لیکن معافی تب ملے گی جب تو ہیلمیٹ خریدے گا اور ابھی پہنے گا۔ جا ہو پان سنگھ اس کو ہیلمیٹ والے کی دکان دکھا دو۔ پان سنگھ کے ساتھ جاؤ، پہلے ہیلمیٹ خرید کر لاؤ اور مجھے پہن کر دکھا۔ تبھی تجھے چھوڑوں گا۔
    چلو یو بار تو توکاں معف کرنیوں اولے یک لیجی کی تو پیل پیل بار پہاڑ بٹی ہلدوانی اونوچھے۔ تیر جاگ میں کوے اور ہونو تو سدھا چالان کاٹی دنیوں میں۔ لیکن معافی تب ملے لی جب تو پیلی ہیلمیٹ خرید لے اور اولئے پیر لئے۔ جا ہو پان سنگھ یکاں ہیلمیٹ والے دکان دکھئے دے۔ جا پان سنگھ دگڑی، پیلی ہیلمیٹ خرید بیر لا اور مکاں دکھا پیر بیر۔ تبئے چھوڑون تکوں۔
  • سپاہی- چلو ادھر سامنے وہاں ایک دکان ہے۔ تمہارے پاس ہیلمیٹ لینے کے پیسے تو موجود ہیں نا۔
    ہِٹ ہو پار واں سامنیں میں دکار چھ ایک۔ ڈبل چھن نئے ہیلمیٹاک نیجی تیار پاس
  • لڑکا- آپ رہنے دیجئے بھائی صاحب میں خود ہی جا کر خرید لاتا ہوں۔ خالی آپ کیوں پریشان ہوتے ہو۔ مجھے دکان معلوم ہوگئی ہے۔
    تم رونوں دیئے میں جئے بیر خودے خرید لیوں۔ خالی کیوہوں تکلیف کرے چھے۔ مکاں معلوم پڑیگے دکان۔
  • لڑکا- بھائ صاحب ایک اچھا سا ہیلمیٹ دینا، کتنے کا ہے؟ چار سو روپئے کا۔ ٹھیک ہے یہ لیجیے چار سو روپئے
    داجیو ایک ہیلمیٹ دی دیا بھل جس، کتوکے چھہ؟ چار سو روپیک۔ ٹھیک چھہ یو لیو چار سو روپئے
  • لڑکا- سر یہ دیکھئے اب میں نے ہیلمیٹ خرید کر پہن بھی لیا ہے۔ اب تو ٹھیک ہے۔
    سر یو دیکھو اب میںل ہیلمیٹ خرید بیر پیر لئے ہیلو۔ اب تو ٹھیک چھ۔
  • داروغہ- ہاں اب ٹھیک ہے۔ چلو اس بار تمہیں معلوم نہیں تھا اس لیے معاف کر دیا۔ آئندہ پھر بغیر ہیلمیٹ پہنے گاڑی چلاتے مجھے نظر مت آ جانا۔ ورنہ سیدھے چالان کاٹ دوںگا۔ چل اب یہاں سے بھاگ۔
    ہوئے اب ٹھیک چھ۔ چل یو بار تکوں پتا نی چھی یئک لیجی معاف کر دیں مینل۔ آئندہ پھر بنا ہیلمیٹ پیری جن دکھئی دیے مکوں۔ نتر سیدھا چالان کر دیوں۔ چل بھاج یاں بٹی۔
  • لڑکا- شکریہ جناب، اب تو میں سبھی جگہ خواہ وہ پہاڑی علاقہ ہو یا ہموار مقام ہمیشہ ہیلمیٹ پہن کر ہی گاڑی چلاؤں گا۔
    دھنیواد سر، اب تو میں سب جاگ چاہے پہار ہو یا پلین ہمیشہ ہیلمیٹ پیر بیرے گاڑی چلوں
  • داروغہ صاحب- ٹھیک ہے۔ اب رانی کھیت جاکر وہاں بھی سب کو بتا دینا کہ یہاں ہیلمیٹ پہن کر آئیں۔
    ٹھیک چھ۔ اب رانی کھیت جیبیر واں لئے سبنکاں بتے دیے کہ یاں ہیلمیٹ پیر بیر ایا
  • لڑکا- جناب، میں ہیلمیٹ کے بارے میں سب کو بتا دوں گا۔
    سر، سبھن کن بتوں ہلیمیٹکا بارا میں